عقیل اختر … امتحان

امتحان

مجھے اک امتحاں درپیش ہے اور میں پریشاں ہوں
نہیں ایسا نہیں کہ
میں نے سورج کو جھکا کر روشنی کے زاویے پابند کرنے ہیں
نہیں ایسا نہیں کہ
چاند تارے توڑنے کو اس فلک کے پار جاکر کہکشاں کو چھو کے آنا ہے
نہیں ایسا نہیں کہ
رستے دریا کے بدل کر اس زمیں کو اک سمندر اور دینا ہے
نہ ہی ہستی کے مجھ کو پار جا کر معرفت کے راز پانے ہیں
نہ مجھ کو اُس کے جلووں سے سیہ شب جگمگانی ہے
نہ میں نے وقت کی رفتار سے آگے نکلنا ہے
مجھے تو بس کسی کی اک تمنا کو رہِ تکمیل دینا ہے
کسی کی ننھی کوشش کو ذرا آگے بڑھانا ہے
روئے قرطاس  پر اُس نے ابھی معصوم ہاتھوں سے جو اک خاکہ سا کھینچا ہے
مجھے اُن آڑھی ترچھی سی لکیروں میں ذرا سا زندگی کا رنگ بھرنا ہے
کہ کل اسکول میں "خیرو” کا کلرنگ کمپی ٹیشن   ہے
مجھے اک امتحاں درپیش ہے اور میں پریشاں ہوں

نوٹ: میری بیٹی خیریہ جسے پیار سے میں ”خیرو "پکارتا ہوں

Related posts

Leave a Comment